نیند کی کمی نوجوانوں میں خودکشی کے خیالات کو بڑھاوا دے سکتی ہے، تحقیق

جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر اسمارٹ فونز، ٹی وی، اور گیمنگ ڈیوائسز کا رات گئے تک استعمال، نیند کی کمی کی سب سے بڑی وجہ ہے
نیند کی کمی نوجوانوں میں خودکشی کے خیالات کو بڑھاوا دے سکتی ہے، تحقیق

نوجوانوں کی ذہنی صحت پر نیند کی کمی کے اثرات کے حوالے سے ایک تازہ تحقیق نے چونکا دینے والے نتائج پیش کیے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ ناکافی نیند نہ صرف جذباتی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے بلکہ یہ نوجوانوں کو خوداذیتی (self-harm) اور یہاں تک کہ خودکشی کے خیالات کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔ ماہرین نے والدین اور معاشرے کو خبردار کیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر اسمارٹ فونز اور دیگر اسکرینز کا ضرورت سے زیادہ استعمال، نیند کے مسائل کی بنیادی وجہ بن رہا ہے۔ یہ رپورٹ تحقیق کی تفصیلات، اس کے اثرات، اور ماہرین کی تجاویز پر روشنی ڈالتی ہے، جو والدین اور نوجوانوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔

 نیند کی کمی اور خوداذیتی کا تعلق

حال ہی میں شائع ہونے والی ایک سائنسی تحقیق نے نیند کی کمی اور ذہنی صحت کے درمیان ایک گہرے تعلق کو اجاگر کیا ہے۔ محققین نے پایا کہ وہ نوجوان جو مسلسل ناکافی نیند کا شکار ہوتے ہیں، وہ جذباتی طور پر غیر متوازن ہو جاتے ہیں، جس سے ان میں چڑچڑاپن، مایوسی، اور ڈپریشن جیسے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ یہ جذباتی عدم توازن وقت کے ساتھ سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے، جن میں خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے خیالات شامل ہیں۔

تحقیق کے مطابق، نیند کی کمی دماغ کے ان اہم حصوں کو متاثر کرتی ہے جو فیصلہ سازی، جذباتی کنٹرول، اور خطرات کا ادراک کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب دماغ کو مناسب آرام نہ ملے تو پریفرنٹل کورٹیکس، جو منطقی فیصلوں اور جذبات کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار ہے، اپنی کارکردگی کھو دیتا ہے۔ اس سے نوجوانوں میں خطرناک رویوں کا امکان بڑھ جاتا ہے، جو بعض اوقات خوداذیتی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

نیند کی کمی کی وجوہات

ماہرین نے تحقیق میں واضح کیا کہ جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر اسمارٹ فونز، ٹی وی، اور گیمنگ ڈیوائسز کا رات گئے تک استعمال، نیند کی کمی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ نیلی روشنی (blue light) جو ان اسکرینز سے خارج ہوتی ہے، دماغ میں میلاٹونن کی پیداوار کو روکتی ہے، جو نیند کے لیے ضروری ہارمون ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوان نہ صرف دیر سے سوتے ہیں بلکہ ان کی نیند کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال اور رات کے وقت گیمنگ یا ویڈیو اسٹریمنگ کی عادت نے نوجوانوں کے سونے کے اوقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو ذہنی صحت کے مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

عمر کے لحاظ سے گائیڈلائنز

ماہرین نے واضح کیا کہ نیند کی مقدار ہر عمر کے گروپ کے لیے مختلف ہوتی ہے، اور اسے نظر انداز کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق:

  • چھوٹے بچوں (6-12 سال) کو روزانہ 9 سے 12 گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا جسمانی اور ذہنی نشوونما مناسب طریقے سے ہو۔

  • نوجوانوں (13-18 سال) کے لیے کم از کم 8 سے 10 گھنٹے کی نیند لازمی ہے تاکہ وہ جذباتی اور تعلیمی دباؤ سے نمٹ سکیں۔

ناکافی نیند نہ صرف ذہنی صحت بلکہ تعلیمی کارکردگی، جسمانی نشوونما، اور سماجی رویوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ماہرین نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کے نیند کے شیڈول کو ترجیح دیں اور اسے ایک معمول کے طور پر نافذ کریں۔

ماہرین کی تجاویز

محققین نے والدین اور سرپرستوں کے لیے کئی عملی تجاویز پیش کی ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی نیند کے معیار کو بہتر بنا سکیں:

  1. اسکرین ٹائم کی حد بندی: سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس، اور ٹی وی کا استعمال بند کر دیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے کمروں سے الیکٹرانک آلات ہٹائیں یا ان کے استعمال کے اوقات مقرر کریں۔

  2. پرسکون ماحول: بچوں کے سونے کے کمرے کو پرسکون اور آرام دہ بنائیں۔ کم روشنی، مناسب درجہ حرارت، اور شور سے پاک ماحول نیند کے معیار کو بہتر بناتا ہے۔

  3. باقاعدہ نیند کا شیڈول: بچوں کے لیے ایک مستقل سونے اور جاگنے کا وقت مقرر کریں، حتیٰ کہ اختتام ہفتہ پر بھی۔ یہ جسم کی اندرونی گھڑی (circadian rhythm) کو منظم رکھتا ہے۔

  4. آگاہی اور بات چیت: والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ نیند کی اہمیت پر بات کرنی چاہیے اور انہیں اسکرین کے زیادہ استعمال کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہیے۔

ماہرین نے یہ بھی تجویز کیا کہ اگر والدین کو اپنے بچوں میں چڑچڑاپن، ڈپریشن، یا خوداذیتی کے آثار نظر آئیں تو وہ فوری طور پر کسی ماہر نفسیات یا کاؤنسلر سے رجوع کریں۔

 تشویش اور آگاہی

اس تحقیق کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس، پر والدین اور نوجوانوں نے اپنی تشویش اور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’یہ تحقیق آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ ہمارے بچوں کی نیند کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔‘ ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، ’اسمارٹ فونز ہماری زندگی کا حصہ ہیں، لیکن ہمیں ان کا استعمال محدود کرنا ہوگا، خاص طور پر رات کے وقت۔‘

کچھ صارفین نے والدین کے کردار پر زور دیا۔ ایک صارف نے لکھا، ’والدین کو خود بھی اسکرین ٹائم کم کرنا چاہیے تاکہ بچوں کے لیے اچھی مثال قائم ہو۔‘ یہ ردعمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عوام اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ رہی ہے اور اسے حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دے رہی ہے۔

 ذہنی صحت اور نیند کا عالمی چیلنج

نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر ایک بڑھتا ہوا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک نوجوان ڈپریشن یا دیگر ذہنی مسائل کا شکار ہے۔ نیند کی کمی اس مسئلے کو مزید گھمبیر بناتی ہے، کیونکہ یہ دماغ کی صحت اور جذباتی استحکام کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں ذہنی صحت کے مسائل پر بات کرنا اب بھی ایک ممنوع سمجھا جاتا ہے، اس طرح کی تحقیقات عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اہم ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں، جہاں تعلیمی دباؤ، سماجی توقعات، اور ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال نوجوانوں کی زندگی کا حصہ ہے، نیند کی کمی کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ تحقیق نہ صرف سائنسی طور پر اہم ہے بلکہ یہ معاشرے کے لیے ایک اہم پیغام بھی لے کر آتی ہے کہ نیند کی کمی کو محض ایک معمولی مسئلہ سمجھنے کی بجائے اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ نیند کی کمی اور خوداذیتی کے درمیان تعلق کا انکشاف والدین، اساتذہ، اور پالیسی سازوں کے لیے ایک وارننگ ہے کہ وہ نوجوانوں کی ذہنی صحت پر توجہ دیں۔

خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس تحقیق کے نتائج انتہائی اہم ہیں۔ پاکستانی نوجوان، جو اکثر رات گئے تک سوشل میڈیا، گیمنگ، یا اسٹریمنگ پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں، اس رجحان کے سب سے زیادہ متاثرہ گروہوں میں شامل ہیں۔ والدین اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نیند کے بارے میں آگاہی مہمات شروع کریں اور بچوں کو صحت مند عادات اپنانے کی ترغیب دیں۔

ماہرین کی تجاویز، جیسے کہ اسکرین ٹائم کی حد بندی اور باقاعدہ نیند کے شیڈول کی تشکیل، عملی اور قابل عمل ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے والدین اور معاشرے کی اجتماعی کوشش درکار ہے۔ اس کے علاوہ، ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستانی معاشرے میں نفسیاتی مشاورت کو فروغ دینے اور اس سے جڑے سماجی تعصبات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ تحقیق ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ٹیکنالوجی کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ اسمارٹ فونز اور دیگر آلات نے ہماری زندگیوں کو آسان بنایا ہے، لیکن ان کا بے جا استعمال ہماری صحت، خاص طور پر نوجوان نسل کی ذہنی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

آخر میں، یہ تحقیق والدین، اساتذہ، اور پالیسی سازوں کے لیے ایک عظیم موقع ہے کہ وہ نیند کی اہمیت کو ترجیح دیں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت کو بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ اگر ہم اس تحقیق کے نتائج کو سنجیدگی سے لیں اور اس پر عمل کریں تو نہ صرف خوداذیتی کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ہمارے نوجوانوں کو ایک صحت مند اور خوشحال مستقبل بھی دیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں