فطرت اپنی حیرت انگیز چالوں اور مخلوقات کے انوکھے رویوں سے ہمیشہ سائنسدانوں کو حیران کرتی رہتی ہے۔ ایک تازہ تحقیق نے یورپین کامن فراگز (Rana temporaria) کی مادہ مینڈکوں کے ایک دلچسپ رویے کو اجاگر کیا ہے، جس میں وہ ناپسندیدہ نر مینڈکوں سے بچنے کے لیے ’موت کا ڈرامہ‘ رچاتی ہیں۔ اس سائنسی طور پر تصدیق شدہ رویے کو ’تھیناٹوسس‘ (thanatosis) یا ’ٹونک ایموبیلٹی‘ کہا جاتا ہے، جو مادہ مینڈکوں کی ایک چالاک حکمت عملی ہے۔
موت کا ڈرامہ رچانے کی حکمت عملی
سائنسدانوں نے حال ہی میں کیے گئے ایک مطالعے میں دریافت کیا کہ یورپین کامن فراگز کی مادہ مینڈک نر مینڈکوں کی ناپسندیدہ توجہ یا جنسی دباؤ سے بچنے کے لیے ایک غیر معمولی طریقہ اپناتی ہیں۔ اس رویے کو ’تھیناٹوسس‘ کہا جاتا ہے، جس میں مادہ مینڈک اپنے جسم کو مکمل طور پر بے حرکت کر دیتی ہیں، اپنی ٹانگیں اور بازو کھول کر زمین پر پھیلا دیتی ہیں، اور ایسی حالت اختیار کرتی ہیں جیسے وہ مر چکی ہوں۔ یہ ڈرامائی عمل نر مینڈکوں کو دھوکہ دینے اور ان کی گرفت سے نکلنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
محققین نے پایا کہ یہ رویہ خاص طور پر اس وقت دیکھا جاتا ہے جب نر مینڈک مادہ کو گھیر لیتے ہیں یا ان پر جنسی طور پر دباؤ ڈالتے ہیں، جسے سائنسی اصطلاح میں ’جنسی ہراسگی‘ کہا گیا ہے۔ یہ دباؤ مادہ مینڈکوں کے لیے تناؤ کا باعث بنتا ہے، اور وہ اس سے بچنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں استعمال کرتی ہیں، جن میں تھیناٹوسس سب سے نمایاں ہے۔
مادہ مینڈکوں کے دفاعی رویے
تحقیق میں مادہ مینڈکوں کے تین بنیادی دفاعی رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو وہ نر مینڈکوں سے بچنے کے لیے اپناتی ہیں:
-
جسم کو گھمانا: مادہ مینڈک نر کی گرفت سے نکلنے کے لیے اپنے جسم کو گھماتی ہیں اور نئی پوزیشن اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ جسمانی چالاکی انہیں نر کی گرفت سے آزاد ہونے میں مدد دیتی ہے۔
-
نر کی آواز کی نقل: کچھ مادہ مینڈک نر مینڈکوں کی طرح آوازیں نکالتی ہیں تاکہ نر کو الجھن میں ڈال سکیں۔ یہ آوازیں نر کو یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ شاید کسی دوسرے نر سے مقابلہ کر رہے ہیں، جس سے وہ مادہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔
-
تھیناٹوسس (موت کا ڈرامہ): سب سے دلچسپ رویہ یہ ہے کہ مادہ اپنے جسم کو مکمل طور پر ساکت کر دیتی ہے، اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کو پھیلا کر زمین پر لیٹ جاتی ہے، اور ایسی حالت اختیار کرتی ہے جیسے وہ مردہ ہو۔ اس سے نر مینڈک اکثر الجھن میں پڑ جاتا ہے اور مادہ کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
محققین نے نوٹ کیا کہ یہ رویے خاص طور پر چھوٹی اور کم عمر مادہ مینڈکوں میں زیادہ عام ہیں۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کے پاس تجربہ کم ہوتا ہے، اور وہ نر مینڈکوں کے دباؤ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، چھوٹی مادہ مینڈکوں کے لیے تولیدی عمل جسمانی طور پر زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ یہ دفاعی حکمت عملی زیادہ شدت سے استعمال کرتی ہیں۔
تحقیق کا پس منظر اور اہمیت
یہ تحقیق جرمن سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے کی، جو یورپین کامن فراگز کے تولیدی رویوں پر کئی سالوں سے تحقیق کر رہی ہے۔ مطالعے کے دوران، سائنسدانوں نے یورپ کے مختلف تالابوں اور آبی ذخائر میں مینڈکوں کے رویوں کا مشاہدہ کیا، خاص طور پر ان کے تولیدی موسم (breeding season) کے دوران، جو عام طور پر بہار میں ہوتا ہے۔ اس دوران نر مینڈک مادہ مینڈکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے شدید مقابلہ کرتے ہیں، جو بعض اوقات مادہ مینڈکوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
تحقیق سے پتہ چلا کہ مادہ مینڈکوں کا ’تھیناٹوسس‘ رویہ نہ صرف نر مینڈکوں سے بچنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے بلکہ یہ فطرت میں بقا کی ایک چالاک حکمت عملی بھی ہے۔ یہ رویہ دیگر جانوروں، جیسے کہ اوپوسم اور کچھ کیڑوں میں بھی دیکھا گیا ہے، لیکن مینڈکوں میں اس کی تصدیق ایک نیا سائنسی انکشاف ہے۔
حیرت اور دلچسپی
اس تحقیق کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس، پر لوگوں نے اسے دلچسپ اور حیران کن قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’مینڈک بھی موت کا ڈرامہ رچاتے ہیں؟ فطرت واقعی حیرت انگیز ہے!‘ ایک اور صارف نے طنزیہ انداز میں تبصرہ کیا، ’شاید ہمیں بھی کبھی کبھار مینڈکوں سے سیکھنا چاہیے کہ ناپسندیدہ لوگوں سے کیسے بچنا ہے۔‘
کچھ صارفین نے اس رویے کو انسانی رویوں سے جوڑتے ہوئے کہا کہ یہ تحقیق ہمیں فطرت سے سیکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جانور کس طرح اپنی بقا کے لیے اتنی چالاکیاں کرتے ہیں۔ یہ ہمیں اپنے مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے طریقے سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔‘
تھیناٹوسس کی اہمیت
تھیناٹوسس کا رویہ فطرت میں بقا کی ایک قدیم حکمت عملی ہے، جو کئی جانوروں میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ رویہ شکاریوں یا دیگر خطرات سے بچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مینڈکوں میں اس کی دریافت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ فطرت کس طرح پیچیدہ اور تخلیقی طریقوں سے مخلوقات کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مادہ مینڈکوں کا یہ رویہ نہ صرف ان کی بقا کو یقینی بناتا ہے بلکہ یہ تولیدی عمل کے دوران ان کے انتخاب کے حق کو بھی تحفظ دیتا ہے۔
یہ تحقیق سائنسی برادری کے لیے بھی اہم ہے، کیونکہ یہ جانوروں کے رویوں اور ان کے ارتقائی فوائد کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس سے مستقبل میں دیگر پرجاتیوں کے رویوں پر بھی تحقیق کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
یہ تحقیق فطرت کے عجائبات اور جانوروں کی چالاک حکمت عملیوں کی ایک شاندار مثال ہے۔ مادہ مینڈکوں کا ’موت کا ڈرامہ‘ رچانا نہ صرف ایک دلچسپ سائنسی انکشاف ہے بلکہ یہ ہمیں فطرت کی پیچیدگیوں اور مخلوقات کی بقا کے لیے ان کے غیر معمولی طریقوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یورپین کامن فراگز کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ حتیٰ کہ ایک چھوٹا سا جانور بھی اپنی حفاظت کے لیے کس قدر تخلیقی اور موثر طریقے اپنا سکتا ہے۔
اس تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ مادہ مینڈکوں کے انتخاب کے حق کو اجاگر کرتی ہے۔ تولیدی عمل کے دوران نر مینڈکوں کا دباؤ مادہ مینڈکوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اور تھیناٹوسس جیسے رویے انہیں اس دباؤ سے نکلنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ فطرت میں جنسی انتخاب (sexual selection) کے عمل کو سمجھنے کے لیے بھی اہم ہے، کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مادہ مینڈک اپنی مرضی سے پارٹنر کا انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک کے تناظر میں، جہاں ماحولیاتی تحفظ اور حیاتیاتی تنوع پر تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اس طرح کی مطالعات مقامی سائنسدانوں کے لیے ایک تحریک ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے آبی ذخائر اور دلدلی علاقوں میں موجود مینڈکوں کی مختلف انواع پر ایسی ہی تحقیق کی جا سکتی ہے تاکہ ان کے رویوں اور ماحولیاتی کردار کو سمجھا جا سکے۔
تاہم، اس تحقیق سے یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان بھی فطرت سے سیکھ کر اپنی زندگیوں میں تناؤ سے نمٹنے کے لیے نئے طریقے اپنا سکتے ہیں؟ مادہ مینڈکوں کی چالاکی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ بعض اوقات سادہ لیکن تخلیقی حکمت عملی سنگین مسائل سے بچنے کا راستہ ہو سکتی ہے۔
آخر میں، یہ تحقیق ہمیں فطرت کی خوبصورتی اور اس کی پیچیدگیوں کی قدر کرنے کی یاد دہانی کراتی ہے۔ مادہ مینڈکوں کا یہ ڈرامائی رویہ نہ صرف سائنسی طور پر اہم ہے بلکہ یہ ہمیں فطرت کے عجائبات سے لطف اندوز ہونے اور اسے تحفظ دینے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی اپنی بقا کے لیے غیر معمولی صلاحیتیں رکھتی ہے، جو ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔