8 ستمبر 2025 کو شائع ہونے والی ایک اہم تحقیق نے والدین کی سگریٹ نوشی کے دور رس اثرات کو اجاگر کیا ہے، جو نہ صرف ان کے بچوں بلکہ ان کی اگلی نسلوں کی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہ مطالعہ، جو معروف سائنسی جریدے تھورکس میں شائع ہوا، بتاتا ہے کہ والدین کے سگریٹ کے دھوئیں سے غیر ارادی طور پر متاثر ہونے والے بچوں کی اگلی نسل، یعنی ان کے پوتوں اور نواسوں، میں پھیپھڑوں کی دائمی بیماریوں، خاص طور پر کرونک آبسٹرکٹیو پلمونری ڈیزیز (COPD)، کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبرن کے سائنسدانوں نے تسمانین لانگیٹیوڈینل ہیلتھ اسٹڈی کے تحت 8,000 سے زائد افراد کے پھیپھڑوں کی صحت کا جائزہ لیا، جس سے یہ حیران کن انکشافات سامنے آئے۔ یہ رپورٹ اس تحقیق کی تفصیلات، اس کے نتائج، اور اس کے سماجی و طبی مضمرات کو بیان کرتی ہے، جو والدین اور پالیسی سازوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔
تحقیق کا پس منظر
سگریٹ نوشی کے نقصانات سے متعلق تحقیق برسوں سے جاری ہے، لیکن یہ نیا مطالعہ ایک نئی جہت پیش کرتا ہے کہ اس کے اثرات کس طرح نسلوں تک منتقل ہو سکتے ہیں۔ سگریٹ کے دھوئیں کے براہ راست اثرات، جیسے کہ پھیپھڑوں کا کینسر یا دل کی بیماریاں، تو معروف ہیں، لیکن غیر ارادی دھوئیں (secondhand smoke) کے طویل مدتی اثرات، خاص طور پر بچوں اور ان کی اولاد پر، اب تک کم زیر بحث رہے ہیں۔ یہ تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ والدین کی سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والا دھواں نہ صرف بچوں کے پھیپھڑوں کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ان کی اگلی نسل تک یہ نقصان منتقل ہو سکتا ہے۔ یہ انکشاف والدین کے لیے ایک سنگین انتباہ ہے کہ وہ اپنی عادات کے بارے میں دوبارہ سوچیں۔
یہ مطالعہ تسمانین لانگیٹیوڈینل ہیلتھ اسٹڈی کا حصہ ہے، جو آسٹریلیا میں ایک طویل المدتی تحقیقی پروگرام ہے۔ اس کے تحت ہزاروں افراد کی صحت سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، جس میں پھیپھڑوں کی کارکردگی پر خاص توجہ دی گئی۔ محققین نے اسپائرومیٹری ٹیسٹ کا استعمال کیا، جو پھیپھڑوں کی ہوا کو سانس لینے اور خارج کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگاتا ہے۔ اس ٹیسٹ سے COPD اور دیگر سانس کے امراض کی تشخیص کی جاتی ہے۔ تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ والدین کی سگریٹ نوشی کا دھواں بچوں کی اگلی نسل پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔
تحقیق کے نتائج
محققین نے پایا کہ جن بچوں نے بچپن میں اپنے والدین کے سگریٹ کے دھوئیں کا سامنا کیا، ان کے بچوں (تیسری نسل) میں پھیپھڑوں کی کارکردگی میں کمی اور COPD کا خطرہ نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ COPD ایک سنگین بیماری ہے جو پھیپھڑوں میں ہوا کے بہاؤ کو محدود کرتی ہے، جس سے سانس لینے میں دشواری، دائمی کھانسی، اور جسمانی کمزوری جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، یہ بیماری ہر سال تقریباً 30 لاکھ افراد کی موت کا باعث بنتی ہے، جو اسے عالمی سطح پر موت کی تیسری بڑی وجہ بناتی ہے۔
تحقیق میں خاص طور پر والد حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنے بچوں کے قریب سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔ اگرچہ مطالعہ ماں اور باپ دونوں کی سگریٹ نوشی کے اثرات پر مبنی تھا، لیکن والد کی سگریٹ نوشی کے اثرات زیادہ نمایاں پائے گئے۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ گھریلو ماحول میں والد کی سگریٹ نوشی زیادہ عام ہوتی ہے۔ محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ غیر ارادی دھوئیں کے اثرات ایپی جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے منتقل ہو سکتے ہیں، جو جینز کے افعال کو تبدیل کرتی ہیں بغیر ان کی ترتیب میں ردوبدل کیے۔ یہ ایپی جینیاتی تبدیلیاں ماحولیاتی عوامل، جیسے کہ دھوئیں کے سامنے آنے سے، پیدا ہوتی ہیں اور اگلی نسل تک منتقل ہو سکتی ہیں۔
سگریٹ کے دھوئیں کے نقصانات
سگریٹ کا دھواں متعدد زہریلے کیمیکلز پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں نکوٹین، کاربن مونو آکسائیڈ، اور دیگر سرطان زا مادے شامل ہیں۔ جب بچے اس دھوئیں کے رابطے میں آتے ہیں، تو ان کے پھیپھڑوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے، کیونکہ بچپن پھیپھڑوں کی صحت کے لیے ایک نازک دور ہوتا ہے۔ یہ نقصان فوری طور پر دمہ یا سانس کی دیگر بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات، جیسے کہ COPD، بعد کی زندگی میں سامنے آتے ہیں۔ اس تحقیق نے یہ بھی ظاہر کیا کہ یہ نقصانات صرف ایک نسل تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ایپی جینیاتی اثرات کی وجہ سے ان کی اولاد تک منتقل ہو سکتے ہیں۔
سماجی اور طبی مضمرات
یہ تحقیق والدین کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ سگریٹ نوشی نہ صرف ان کی اپنی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ان کے بچوں اور ان کی اگلی نسلوں کی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں سگریٹ نوشی ایک سماجی عادت کے طور پر رائج ہے اور عوامی مقامات پر اس کے خلاف قوانین کا نفاذ کمزور ہے، یہ تحقیق ایک اہم انتباہ ہے۔ پاکستانی گھروں میں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، بچوں کا والدین کے سگریٹ کے دھوئیں سے متاثر ہونا عام ہے۔ اس تحقیق سے پالیسی سازوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ سگریٹ نوشی کے خلاف سخت قوانین نافذ کریں اور عوام میں آگاہی بڑھانے کے لیے مہمات شروع کریں۔
طبی نقطہ نظر سے، یہ تحقیق ڈاکٹروں کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ مریضوں کی خاندانی تاریخ کا جائزہ لیتے وقت والدین کی سگریٹ نوشی کے رجحانات پر بھی غور کریں۔ اس سے پھیپھڑوں کی بیماریوں کی ابتدائی تشخیص اور روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ مزید برآں، یہ مطالعہ ایپی جینیاتی تحقیق کے شعبے میں نئی راہیں کھولتا ہے، جو مستقبل میں جینیاتی امراض کے علاج کے لیے نئے طریقے فراہم کر سکتا ہے۔
یہ تحقیق سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں ایک نئی اور گہری سمجھ پیش کرتی ہے، جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اس کے اثرات ایک فرد سے آگے بڑھ کر اس کی نسلوں تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں تمباکو کا استعمال بڑے پیمانے پر ہے اور اسے سماجی طور پر قبول کیا جاتا ہے، اس تحقیق کے نتائج کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سگریٹ نوشی کے خلاف سخت پالیسیاں اپنائے، جیسے کہ عوامی مقامات پر مکمل پابندی اور تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ۔ اس کے علاوہ، والدین کو اپنے بچوں کی صحت کے تحفظ کے لیے گھر میں سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ تحقیق ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ ہماری عادات کا اثر ہماری آنے والی نسلوں پر پڑتا ہے، اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے شعوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔