پنجاب میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور اس کے اثرات اب کراچی کی مارکیٹوں اور بازاروں تک پہنچ گئے ہیں، جہاں سبزیوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شہریوں کی جیبوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، کیونکہ روزمرہ استعمال کی سبزیوں کی قیمتیں 100 فیصد سے زائد بڑھ گئی ہیں، جبکہ آٹے کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ شہری انتظامیہ سے سرکاری نرخوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن گراں فروشی کا طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
سبزیوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ
کراچی کے بازاروں میں سبزیوں کی قیمتوں نے شہریوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ چند ہفتوں قبل تک ٹماٹر، جو 60 روپے فی کلو گرام کے حساب سے دستیاب تھے، اب 200 روپے فی کلو تک جا پہنچے ہیں، یعنی 233 فیصد اضافہ۔ اسی طرح، روزمرہ استعمال کی دیگر سبزیاں جیسے تورئی اور ٹنڈا، جو عام طور پر سستی سمجھی جاتی ہیں، اب 200 سے 300 روپے فی کلو کے درمیان فروخت ہو رہی ہیں۔ بھنڈی، کریلے، اور دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں بھی اسی طرح کا رجحان دیکھا جا رہا ہے، جو شہریوں کے لیے معاشی دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ مصنوعی ہے اور اس کی بنیادی وجہ پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ زرعی زمینوں سے سبزیوں کی سپلائی میں کمی ہے۔ ایک خریدار نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، "سندھ میں تو ابھی سیلاب آیا بھی نہیں، لیکن سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ یہ واضح طور پر گراں فروشوں کی من مانی ہے۔” شہریوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرکاری نرخ ناموں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔
آٹے کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ
سبزیوں کے ساتھ ساتھ، گندم اور آٹے کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جو کہ سیلاب کے فوری بعد ذخیرہ اندوزوں کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی 29 اگست 2025 کی رپورٹ کے مطابق، کراچی ملک بھر میں سب سے مہنگا آٹا خریدنے والا شہر بن گیا ہے۔ شہر قائد میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 2,100 روپے تک پہنچ گئی ہے، جو کہ ایک ہفتے کے اندر 300 روپے کا اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ حیدرآباد اور سکھر میں بھی آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 280 روپے کا اضافہ ہوا، جبکہ لاڑکانہ اور خضدار میں بھی اسی طرح کی صورتحال ہے۔
پنجاب میں دریائے ستلج، چناب، اور راوی میں آنے والے شدید سیلاب نے زرعی زمینوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس سے گندم، چاول، اور دیگر فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ اس نقصان نے سپلائی چین کو متاثر کیا، اور نتیجتاً مارکیٹ میں گندم اور آٹے کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ ایک مارکیٹ تجزیہ کار نے بتایا کہ "ذخیرہ اندوزوں نے سیلاب کی خبروں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمتیں بڑھا دیں، حالانکہ مارکیٹ میں ابھی بھی گندم کے کافی ذخائر موجود ہیں۔”
سیلاب کا زرعی شعبے پر اثر
پنجاب میں حالیہ سیلاب نے زرعی شعبے کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے۔ ماہرین کے مطابق، لاکھوں ایکڑ زرعی زمین زیر آب آ چکی ہے، جس سے گندم، کپاس، چاول، سبزیاں، اور چارے کی فصلیں برباد ہو گئی ہیں۔ دریائے ستلج کے ہیڈ اسلام پر بڑھتے سیلابی ریلے نے قریبی دیہاتوں اور زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچایا، جبکہ دریائے چناب اور راوی میں پانی کا شدید دباؤ بدستور موجود ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے خبردار کیا ہے کہ اگلے چند دنوں میں ملتان اور خانیوال سمیت دیگر اضلاع میں سیلابی صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
زرعی نقصانات کا براہ راست اثر کراچی جیسے شہروں کی منڈیوں پر پڑا ہے، جہاں سبزیوں اور اناج کی سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ سیلاب نے نہ صرف ان کی فصلوں کو تباہ کیا بلکہ ان کے معاشی حالات کو بھی بدتر کر دیا ہے، کیونکہ وہ اپنی فصلوں سے ہونے والی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں۔ اس صورتحال نے نہ صرف کسانوں بلکہ شہری صارفین کو بھی شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
شہریوں کا ردعمل اور مطالبات
کراچی کے شہریوں نے سبزیوں اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک گھریلو خاتون نے کہا، "ہر ہفتے قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اور ہماری تنخواہ وہی پرانی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گراں فروشی روکنے کے لیے سخت اقدامات کرے۔” ایک اور شہری نے سرکاری نرخ ناموں کی غیرموثری پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "کمشنر کراچی کی جانب سے جاری کردہ نرخ نامے صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ بازاروں میں کوئی ان پر عمل نہیں کرتا۔”
شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انتظامیہ سرکاری نرخ ناموں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور گراں فروشوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عام آدمی کے لیے روزمرہ کی ضروریات پوری کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ "منڈی سے سبزیوں کی قیمت ہی اتنی زیادہ ہے کہ ہم کم نرخوں پر فروخت نہیں کر سکتے۔ انتظامیہ کو منڈی کی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔”
سرکاری نرخ ناموں کی غیرموثری
کراچی میں سرکاری نرخ ناموں کی غیرموثری ایک پرانا مسئلہ ہے۔ گزشتہ سال جون 2024 میں بھی ایکسپریس اردو نے رپورٹ کیا تھا کہ کمشنر کراچی کے دفتر سے جاری کردہ سبزیوں کے نرخ نامے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر، تورئی کی سرکاری قیمت 12 روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی، جبکہ منڈی میں اس کی قیمت 80 روپے سے کم نہ تھی۔ اسی طرح، بھنڈی اور کریلے کے نرخ بھی منڈی کی قیمتوں سے کئی گنا کم تھے، جس کی وجہ سے شہریوں اور دکانداروں کے درمیان تکرار عام ہو گئی تھی۔
اس سال سیلاب کی وجہ سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے، کیونکہ زرعی پیداوار میں کمی نے سپلائی چین کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی موثر مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں، جس کی وجہ سے دکاندار من مانی قیمتوں پر سبزیاں اور دیگر اشیاء فروخت کر رہے ہیں۔ ایک شہری نے ایکس پر پوسٹ کیا، "حکومت کو چاہیے کہ وہ منڈیوں میں قیمتوں کی نگرانی کے لیے خصوصی ٹیمیں بنائے۔ یہ نرخ نامے صرف دکھاوے کے ہیں۔”
سوشل میڈیا پر ردعمل
ایکس پر کراچی میں سبزیوں اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے پر شہریوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، "سیلاب کا بہانہ بنا کر گراں فروش عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ انتظامیہ کہاں سو رہی ہے؟” ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، "کراچی میں آٹا 2,100 روپے فی 20 کلو اور ٹماٹر 200 روپے فی کلو؟ یہ ظلم ہے۔ حکومت کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔” یہ ردعمل شہریوں کی مایوسی اور حکومتی ناکامی کو اجاگر کرتے ہیں۔
پنجاب میں حالیہ سیلاب نے پاکستان کے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور اس کے اثرات کراچی جیسے شہروں کی مارکیٹوں تک پھیل گئے ہیں۔ سبزیوں کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زائد اضافہ اور آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا بڑھوتری نہ صرف سپلائی چین کی خرابی بلکہ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کی وجہ سے بھی ہے۔ اگرچہ سیلاب نے زرعی پیداوار کو متاثر کیا ہے، لیکن مارکیٹ میں قیمتیں بڑھانے کی رفتار اس نقصان سے کہیں زیادہ ہے، جو کہ مصنوعی مہنگائی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
کراچی انتظامیہ کی جانب سے سرکاری نرخ ناموں پر عمل درآمد کی ناکامی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ گزشتہ سالوں کی طرح، اس بار بھی نرخ نامے صرف کاغذوں تک محدود ہیں، اور دکاندار من مانی قیمتوں پر اشیاء فروخت کر رہے ہیں۔ کمشنر کراچی کو چاہیے کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں قیمتوں کی نگرانی کے لیے ایک موثر نظام بنائے، جیسے کہ خصوصی مانیٹرنگ ٹیمیں یا ڈیجیٹل رپورٹنگ ایپس، تاکہ شہریوں کو گراں فروشی سے نجات مل سکے۔
دوسری جانب، یہ بحران حکومتی پالیسیوں کی طویل مدتی ناکامی کو بھی عیاں کرتا ہے۔ پاکستان میں زرعی بنیادی ڈھانچے کی کمی، واٹر مینجمنٹ کے ناقص نظام، اور جنگلات کی کٹائی نے سیلاب کے اثرات کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ اگر حکومت نے پیشگی اقدامات، جیسے کہ مضبوط حفاظتی بندوں کی تعمیر یا ندی نالوں کی صفائی، پر توجہ دی ہوتی تو زرعی نقصانات کو کم کیا جا سکتا تھا۔ مزید برآں، ذخیرہ اندوزی کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ مہنگائی کا ایک بڑا سبب ہے۔
کراچی کے شہریوں کے لیے یہ صورتحال ایک ڈراؤنا خواب بنتی جا رہی ہے، کیونکہ روزمرہ کی ضروریات اب ان کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر نہ صرف قیمتوں کو کنٹرول کرنے بلکہ زرعی بحالی کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، متاثرہ کسانوں کو سبسڈیز اور بیج فراہم کر کے فصلوں کی بحالی کی جا سکتی ہے، جبکہ نئے ڈیمز اور واٹر مینجمنٹ سسٹم کی تعمیر سے مستقبل میں سیلاب کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
یہ بحران ایک ایسی حقیقت کو سامنے لاتا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو غذائی بحران اور مہنگائی کا طوفان عام آدمی کی زندگی کو مزید مشکل بنا دے گا۔ کراچی کے شہریوں کی آواز کو نظر انداز کرنے کے بجائے، حکومت کو ان کے مطالبات پر عمل کرتے ہوئے گراں فروشی کو روکنا ہوگا اور زرعی شعبے کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔