پنجاب میں جاری مون سون کے آٹھویں سلسلے نے دریائے ستلج اور راوی میں پانی کی سطح کو خطرناک حد تک بلند کر دیا ہے، جس سے صوبے کے متعدد اضلاع شدید سیلابی خطرات کی زد میں آ گئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کے عمل نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے، جسے مقامی انتظامیہ اور ماہرین ’آبی جارحیت‘ قرار دے رہے ہیں۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے ضلعی انتظامیہ کو ہائی الرٹ پر رکھتے ہوئے نشیبی علاقوں کے مکینوں کو فوری انخلاء کی ہدایات جاری کی ہیں۔
سیلابی ریلوں کی آمد
رواں سال کے مون سون سیزن نے پنجاب کے دریاؤں کو ایک بار پھر خطرے کی لپیٹ میں لا کھڑا کیا ہے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے، جہاں اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب، دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 90 ہزار کیوسک جبکہ شاہدرہ پر 40 ہزار کیوسک تک پہنچ چکا ہے، جو درمیانے سے اونچے درجے کے سیلاب کی نشاندہی کرتا ہے۔
پی ڈی ایم اے کی تازہ رپورٹ کے مطابق، دریائے ستلج کے ہیڈ سلیمانکی پر درمیانے درجے کا سیلاب موجود ہے، لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پانی کا بہاؤ اسی طرح جاری رہا تو یہ اونچے درجے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ دریائے سندھ میں کالاباغ اور چشمہ پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، جبکہ تربیلا اور تونسہ میں پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق رہا۔ تاہم، بھارتی ڈیموں سے پانی کے اخراج نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھاکھرا ڈیم 80 فیصد، پونگ ڈیم 87 فیصد، اور تھین ڈیم 85 فیصد تک بھر چکے ہیں، جس سے اضافی پانی پاکستانی حدود میں داخل ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
مون سون کی شدت
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید بارشوں نے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔ نارووال میں سب سے زیادہ 103 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جبکہ قصور میں 96، لاہور میں 38، گجرات میں 16، گجرانوالہ میں 13، اور مری میں ایک ملی میٹر بارش ہوئی۔ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ 27 اگست تک مری، راولپنڈی، اٹک، جہلم، اور چکوال میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے، جو دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
یہ بارشیں نہ صرف مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا باعث بن رہی ہیں بلکہ ڈیموں کی گنجائش کو بھی امتحان میں ڈال رہی ہیں۔ تربیلا ڈیم اپنی مکمل گنجائش پر پہنچ چکا ہے، جبکہ منگلا ڈیم 76 فیصد تک بھر گیا ہے۔ اس صورتحال نے حکام کو ہنگامی اقدامات پر مجبور کیا ہے، کیونکہ اضافی پانی کا اخراج نشیبی علاقوں میں تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
بھارتی آبی جارحیت
بھارت کی جانب سے دریائے ستلج اور راوی میں پانی چھوڑنے کا عمل پاکستان کے لیے ایک پرانا لیکن سنگین مسئلہ ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارتی ہائی کمیشن نے 25 اگست کو دریائے ستلج میں ہائی فلڈ کی اطلاع دی، لیکن پاکستانی حکام کے مطابق ماضی میں بھارت کم از کم 18 گھنٹے قبل ایسی اطلاعات فراہم کرتا تھا، جو اس بار نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل بھارت نے دریائے توی میں بھی پانی چھوڑنے کی اطلاع دی تھی، جس سے پاکستانی اضلاع متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کے مطابق، بھارت کے ڈیموں سے پانی کا غیر اعلانیہ اخراج سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان پانی کے منصفانہ استعمال کو یقینی بناتا ہے۔ بھارتی پنجاب سے ملحقہ ہماچل پردیش میں مسلسل بارشوں نے ڈیموں کی سطح کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے، جس کے نتیجے میں اضافی پانی پاکستانی دریاؤں میں چھوڑا جا رہا ہے۔ اس عمل سے قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگر، اور وہاڑی سمیت متعدد اضلاع شدید متاثر ہو رہے ہیں، جہاں زرعی اراضی اور دیہات زیر آب آ چکے ہیں۔
انتظامیہ کا ردعمل
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوری اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے تمام متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ پر رہنے اور ریسکیو و ریلیف آپریشنز کو تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر زور دیا کہ بچوں کو برساتی نالوں، نشیبی علاقوں، یا دریاؤں کے قریب جانے سے روکا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچا جا سکے۔
ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، اور سول ڈیفنس کو ہنگامی بنیادوں پر متحرک کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر قصور احمد عثمان جاوید نے دریائے ستلج سے ملحقہ دیہات سے فوری انخلاء کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے تاکہ عام شہریوں کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
پی ڈی ایم اے نے قصور میں 17 ریلیف کیمپس قائم کیے ہیں، جہاں متاثرہ افراد کے لیے خوراک، ادویات، صاف پانی، اور اینٹی سنیک ویکسین جیسی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، 298 گاڑیوں، 13 موٹر بوٹس، 16 لائف رنگز، اور 210 لائف جیکٹس سمیت دیگر ریسکیو آلات فیلڈ میں موجود ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
عوامی تعاون کی اپیل
پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ نے عوام سے مکمل تعاون کی اپیل کی ہے۔ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہوں اور ریسکیو اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ ایمرجنسی کی صورت میں پی ڈی ایم اے کی ہیلپ لائن 1129 پر رابطہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ ترجمان پی ڈی ایم اے نے کہا کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے جانی و مالی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
مقامی مساجد کے ذریعے اعلانات کروائے جا رہے ہیں تاکہ دریاؤں کے کناروں پر موجود آبادیوں کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جا سکے۔ کنہ، چوونترا، چکری سلیچ، ادھی، زین پور، اور دیگر دیہات کے مکینوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ الرٹ رہیں اور فوری طور پر انخلاء کے عمل میں شریک ہوں۔
متاثرہ علاقوں کی صورتحال
دریائے ستلج اور راوی کے کناروں پر واقع متعدد دیہات پہلے ہی سیلابی پانی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ قصور کے 30 دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے، جبکہ بہاولنگر میں حفاظتی بند ٹوٹنے سے ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آ گئی ہے۔ بورے والا اور بہاولپور میں بھی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، جن میں کپاس، چاول، اور تل کی فصلیں شامل ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پانی کا بہاؤ اسی طرح جاری رہا تو پاکپتن کی 80 کلومیٹر طویل پٹی سمیت دیگر نشیبی علاقوں میں بھی شدید نقصانات کا امکان ہے۔ گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کی سطح 21.30 فٹ تک بلند ہو چکی ہے، جو اونچے درجے کے سیلاب کی نشاندہی کرتی ہے۔
بھارت کی جانب سے دریائے ستلج اور راوی میں پانی چھوڑنے کا حالیہ واقعہ ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات میں پانی کے تنازعے کو اجاگر کرتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے وسائل کے منصفانہ استعمال کو یقینی بناتا ہے، لیکن بھارت کا غیر اعلانیہ پانی چھوڑنا اس معاہدے کی روح کے منافی ہے۔ یہ عمل نہ صرف پاکستانی اضلاع میں تباہی کا باعث بن رہا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے فقدان کو بھی عیاں کرتا ہے۔
پنجاب کی صوبائی انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے کا فوری ردعمل قابل تحسین ہے۔ ریلیف کیمپس کا قیام، ریسکیو آلات کی فراہمی، اور عوام کو بروقت آگاہی دینے کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکام اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ تاہم، چند اہم چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج بھارتی ڈیموں سے پانی کے غیر متوقع اخراج کو روکنے کے لیے سفارتی کوششوں کا فقدان ہے۔ اگرچہ بھارت نے 25 اگست کو ہائی فلڈ کی اطلاع دی، لیکن ماضی کے مقابلے میں اس بار پیشگی اطلاع کا وقت کم تھا، جس سے تیاریوں کے لیے محدود وقت ملا۔
دوسرا چیلنج موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں۔ ہماچل پردیش میں شدید بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے بھارتی ڈیموں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے، جو اضافی پانی کے اخراج کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان کو اپنے واٹر مینجمنٹ سسٹم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، جس میں جدید فلڈ فورکاسٹنگ ٹیکنالوجی، واٹر سٹوریج کی گنجائش میں اضافہ، اور حفاظتی بندوں کی مرمت شامل ہے۔
عوامی سطح پر آگاہی اور تعاون بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے۔ سوشل میڈیا پر شہریوں کے تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اس صورتحال سے پریشان ہیں اور حکومتی اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ زیادہ جامع پالیسیوں کی توقع بھی رکھتے ہیں۔
آخر میں، یہ واقعہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ماحولیاتی اور آبی مسائل اب صرف مقامی یا قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ اگر فوری سفارتی اور تکنیکی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ آبی جارحیت نہ صرف زرعی اور معاشی نقصانات کا باعث بنے گی بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی مزید کشیدہ کر سکتی ہے۔