دریائے راوی میں طغیانی، شاہدرہ پر پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی

نارووال، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، اور قصور سمیت کئی اضلاع میں دیہات زیر آب آ چکے ہیں
دریائے راوی میں طغیانی، شاہدرہ پر پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی

پنجاب کے قلب لاہور سمیت صوبے کے متعدد علاقوں میں دریاؤں کی بلند ہوتی سطح نے سیلابی خطرے کو ایک سنگین صورتحال میں تبدیل کر دیا ہے۔ دریائے راوی میں پانی کا بہاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ آج دوپہر تک 2 لاکھ کیوسک کا ایک بڑا سیلابی ریلا شاہدرہ سے گزر سکتا ہے، جو شہر اور گردونواح کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔

دریائے راوی میں سیلابی ریلا

دریائے راوی، جو لاہور شہر کے لیے ایک اہم آبی گزرگاہ ہے، اس وقت غیر معمولی طغیانی کی زد میں ہے۔ کمشنر لاہور محمد آصف بلال لودھی کے مطابق، شاہدرہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 1 لاکھ 55 ہزار کیوسک تک جا پہنچا ہے، اور صبح 9 سے 10 بجے کے درمیان اس میں مزید اضافہ ہو کر 1 لاکھ 60 ہزار کیوسک تک پہنچنے کا امکان ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے پیش گوئی کی ہے کہ آج دوپہر تک یہ بہاؤ 2 لاکھ کیوسک تک جا سکتا ہے، جو دریائے راوی کی گنجائش 2 لاکھ 50 ہزار کیوسک کے قریب ہے۔

اگرچہ کمشنر لاہور نے یقین دہانی کرائی ہے کہ صورتحال ابھی تک قابو میں ہے، لیکن پانی کی بلند سطح نے شاہدرہ اور موٹروے ٹو کے نشیبی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے دریائے راوی میں 2 لاکھ کیوسک کا ریلا چھوڑے جانے اور مسلسل بارشوں نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق، یہ 39 سال بعد دریائے راوی میں آنے والا سب سے بڑا سیلابی ریلا ہے، جو 1988 کے سیلاب کی یاد تازہ کر رہا ہے۔

انتظامیہ کے حفاظتی اقدامات

دریائے راوی کے بڑھتے ہوئے پانی کے پیش نظر لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے فوری اور جامع اقدامات اٹھائے ہیں۔ لاہور کی پانچ تحصیلوں کے 22 دیہاتوں سے مکینوں کو مکمل طور پر انخلاء کر لیا گیا ہے، جبکہ دریائے راوی کے بیڈ سے بھی تمام رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ، لاہور پولیس، ریسکیو 1122، محکمہ ایریگیشن، لائیو اسٹاک، اور سول ڈیفنس سمیت تمام متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔

ریسکیو 1122 کی ٹیمیں دن رات متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، جبکہ پاک فوج کو بھی پنجاب کے آٹھ اضلاع، بشمول لاہور، فیصل آباد، قصور، اور نارووال، میں ریسکیو آپریشنز کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ اب تک سینکڑوں خاندانوں اور ہزاروں مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے، جبکہ فلڈ ریلیف کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں۔

شاہدرہ کے قریب سائرن بجا کر شہریوں کو خبردار کیا جا رہا ہے، اور مساجد کے ذریعے اعلانات کروا کر لوگوں سے نشیبی علاقوں سے فوری انخلاء کی اپیل کی جا رہی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر سیدہ سنبل جاوید نے رات گئے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی۔

کوٹ مومن میں ہنگامی صورتحال

دریائے راوی کے ساتھ ساتھ دریائے چناب بھی شدید طغیانی کا شکار ہے، جس کے باعث سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن میں ہنگامی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر سرگودھا نے سیلابی خطرے کے پیش نظر تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کو 27 اگست سے 2 ستمبر تک بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ طالب والا پل سے 6 لاکھ کیوسک پانی کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو دریا کی سطح کو مسلسل بلند کر رہا ہے۔

ایکسین ایریگیشن اور اسسٹنٹ کمشنر فیصل شہزاد چیمہ نے ہیڈ قادرآباد کے مقام پر پانی کے بہاؤ کا جائزہ لیا اور بتایا کہ اگرچہ پانی کی سطح ابھی بلند ترین حد تک نہیں پہنچی، لیکن احتیاطی تدابیر کو مزید سخت کیا جا رہا ہے۔ دریائے چناب میں ہیڈ قادرآباد پر پانی کا بہاؤ 9 لاکھ 96 ہزار کیوسک تک پہنچ گیا ہے، جو ایک غیر معمولی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔

 دیہات زیر آب، فصلیں تباہ

دریائے راوی اور دیگر دریاؤں میں سیلابی ریلوں نے پنجاب کے متعدد علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔ نارووال، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، اور قصور سمیت کئی اضلاع میں دیہات زیر آب آ چکے ہیں، جبکہ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں، بشمول کپاس، دھان، اور گنا، مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ شکرگڑھ میں کوٹ نیناں کے مقام پر دریائے راوی میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، جس نے متعدد دیہاتوں کو پانی میں ڈبو دیا اور رابطہ سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں۔

لاہور کے قریب کرتارپور میں دریائے راوی کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے گوردوارہ دربار صاحب سمیت کئی علاقوں میں 4 سے 5 فٹ پانی جمع ہو گیا ہے۔ اسی طرح، قصور کے گنڈا سنگھ والا میں دریائے ستلج کی طغیانی نے گاؤں کے گاؤں زیر آب کر دیے ہیں، اور مقامی لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل ہونے سے گریزاں ہیں۔

گوجرانوالہ ڈویژن میں سیلاب سے 7 افراد جاں بحق اور 3 لاپتہ ہو چکے ہیں، جبکہ سیالکوٹ کے سمبڑیال میں ایک خاندان کے 6 افراد سیلابی پانی میں بہہ گئے، جن میں سے دو کی لاشیں مل چکی ہیں۔

بھارت کی جانب سے پانی کا اخراج

بھارت کی جانب سے دریائے راوی، چناب، اور ستلج میں بڑی مقدار میں پانی چھوڑے جانے نے سیلابی صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ بھارتی ہائی کمیشن نے پاکستانی حکام کو اس بارے میں پیشگی اطلاع دی، لیکن ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ یہ معلومات سندھ طاس معاہدے کے تحت نہیں بلکہ سفارتی ذرائع سے فراہم کی گئیں، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں مزید بارشوں کی توقع ہے، جو سیلابی ریلوں کو اور شدید کر سکتی ہے۔ بھارت کی جانب سے چھوڑا گیا 2 لاکھ کیوسک کا ریلا شاہدرہ کے مقام پر آج رات گزرنے کا امکان ہے، جو لاہور کے نشیبی علاقوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

 خوف اور امید کا ملغوبہ

ایکس پر صارفین نے سیلابی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’دریائے راوی میں 39 سال بعد اتنا بڑا سیلاب دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ انتظامیہ کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔‘‘ ایک اور صارف نے کہا، ’’شاہدرہ کے لوگوں کے لیے دعاگو ہیں۔ امید ہے کہ انتظامیہ صورتحال پر قابو پا لے گی۔‘‘

تاہم، کچھ صارفین نے انتظامیہ کے اقدامات کی تعریف کی۔ ایک پوسٹ میں کہا گیا، ’’ریسکیو 1122 اور پاک فوج کی ٹیمیں دن رات امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں خوف کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں پر اعتماد بھی موجود ہے۔

دریائے راوی میں 39 سال بعد آنے والا یہ سیلابی ریلا نہ صرف ایک قدرتی آفت بلکہ پاکستان کے واٹر مینجمنٹ اور بھارت کے ساتھ پانی کے معاہدوں سے متعلق ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے، اور سندھ طاس معاہدے کی پاسداری نہ ہونے سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ واٹر مینجمنٹ کے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ڈیموں اور واٹر اسٹوریج کی صلاحیت کو بڑھانے کی۔

لاہور کی ضلعی انتظامیہ اور دیگر اداروں کے فوری اقدامات قابل تحسین ہیں، لیکن شاہدرہ اور دیگر نشیبی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ اگر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ کیوسک سے تجاوز کرتا ہے، تو شہری علاقوں میں تباہی کا امکان بڑھ جائے گا۔ اس کے علاوہ، فصلوں کی تباہی اور دیہات کے زیر آب آنے سے معاشی نقصانات بڑھ رہے ہیں، جو پہلے سے دباؤ کا شکار پاکستانی معیشت کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔

مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنے واٹر مینجمنٹ سسٹم کو جدید بنانا ہوگا، جیسے کہ نئے ڈیموں کی تعمیر، فلڈ کنٹرول چینلز کی بحالی، اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ بہتر رابطہ کاری۔ اس کے علاوہ، بھارت کے ساتھ سفارتی سطح پر سندھ طاس معاہدے کی سختی سے پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ ایسی غیر متوقع آبی ریلوں سے بچا جا سکے۔

یہ سیلابی صورتحال ایک مشکل وقت ہے، لیکن پاک فوج، ریسکیو 1122، اور ضلعی انتظامیہ کی سرگرمیاں امید کی ایک کرن ہیں۔ اگر یہ اقدامات مؤثر طریقے سے جاری رہے، تو نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، طویل مدتی منصوبہ بندی اور پائیدار حل کے بغیر ایسی آفات مستقبل میں بھی چیلنجز پیدا کرتی رہیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں