پنجاب کے ضلع گجرات میں 577 ملی میٹر کی ریکارڈ توڑ بارش نے تباہی کا منظر پیش کر دیا ہے، جہاں شہری اور دیہی علاقوں میں سیلاب جیسی صورتحال نے شہریوں کی زندگی کو مفلوج کر دیا۔ ندی نالوں میں طغیانی، گھروں اور دکانوں میں پانی کا داخل ہونا، اور ایک 2 منزلہ عمارت کا گرنا اس قدرتی آفت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ انتظامیہ نے ہنگامی اقدامات کے طور پر ضلع بھر کے اسکول بند کر دیے ہیں، جبکہ نکاسی آب کے لیے گوجرانوالہ سے مشینری طلب کی گئی ہے۔
ریکارڈ توڑ بارش اور سیلابی صورتحال
گجرات شہر اس وقت شدید شہری سیلاب کی لپیٹ میں ہے، جہاں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 577 ملی میٹر بارش نے حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا علاقائی بارش کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس شدید بارش نے نالہ بھنڈر اور نالہ بھمبر جیسے برساتی نالوں کو طغیانی کی حالت میں لا کھڑا کیا، جس سے کئی دیہات زیر آب آ گئے اور شہری علاقوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی۔ سڑکیں، گلیاں، اور چوراہے تالابوں کا منظر پیش کر رہے ہیں، جبکہ گھروں اور دکانوں میں پانی داخل ہونے سے املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
محکمہ موسمیات پاکستان (پی ایم ڈی) کے مطابق، یہ بارشیں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مون سون کی غیر معمولی شدت کا نتیجہ ہیں، جو پنجاب کے دیگر اضلاع، جیسے کہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، اور منڈی بہاؤالدین، میں بھی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ گجرات کے مرکزی علاقوں، جیسے کہ مدینہ سیداں، کچہری چوک، اور گوندل چوک، میں پانی کی سطح 4 سے 5 فٹ تک بلند ہو چکی ہے، جس نے شہری زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
دو منزلہ عمارت کا انہدام
جلال پور جٹاں میں ایک خالی دو منزلہ عمارت کے گرنے کا واقعہ اس سیلاب کی شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ مسلسل بارش اور سیلابی پانی نے عمارت کی بنیادیں کمزور کر دیں، جس کے نتیجے میں یہ مکمل طور پر منہدم ہو گئی۔ خوش قسمتی سے، عمارت خالی ہونے کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اس واقعے نے شہریوں میں خوف و ہراس کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پانی کی مسلسل موجودگی سے دیگر عمارتوں کی بنیادیں بھی خطرے میں ہیں، اور فوری نکاسی آب کے بغیر مزید نقصانات کا خدشہ ہے۔
زرعی اور معاشی نقصانات
گجرات کے دیہی علاقوں میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ چاول، مکئی، اور گنے کی کھڑی فصلیں پانی میں ڈوب گئی ہیں، جس سے کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایک کسان نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہماری سال بھر کی محنت پانی میں بہہ گئی۔ اب نہ تو فصل بچی ہے اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی امید۔” اس کے علاوہ، شہر کے بازاروں اور دکانوں میں قیمتی سامان پانی کی نذر ہو چکا ہے، جس نے مقامی کاروباری برادری کو شدید مالی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
سیشن کورٹ کا احاطہ اور دیگر سرکاری عمارتیں بھی پانی میں ڈوب چکی ہیں، جو شہر کے ناقص ڈرینیج سسٹم کی ناکامی کو عیاں کرتا ہے۔ شہریوں نے انتظامیہ سے شکوہ کیا ہے کہ برساتی نالوں کی صفائی اور واٹر مینجمنٹ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے یہ تباہی ناگزیر ہو گئی۔
تعلیمی اداروں کی بندش اور امدادی کوششیں
ضلعی انتظامیہ نے سیلابی صورتحال کے پیش نظر گجرات بھر کے تعلیمی اداروں کو آج (4 ستمبر 2025) بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ طلبا، اساتذہ، اور اسکول عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا، کیونکہ سڑکوں پر پانی کی موجودگی نے سفری راستوں کو ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ، پانی کی نکاسی کے لیے گوجرانوالہ سے مشینری اور گاڑیاں طلب کی گئی ہیں، لیکن شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ کوششیں ناکافی ہیں۔
پاک فوج، ریسکیو 1122، اور سول ڈیفنس کے اہلکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، اور بوٹس کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق، صوبے بھر میں 1,100 سے زائد ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں، جہاں متاثرین کو خوراک، پانی، اور طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ تاہم، شہریوں نے شکایت کی ہے کہ امدادی کیمپوں کی گنجائش محدود ہے، اور بہت سے لوگ اب بھی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سیالکوٹ کی صورتحال سے موازنہ
قبل ازیں، 27 اگست 2025 کو سیالکوٹ میں 355 ملی میٹر بارش نے شہر کو شدید سیلابی صورتحال سے دوچار کیا تھا، جہاں ہر گلی، چوراہا، اور بازار پانی میں ڈوب گیا تھا۔ سیالکوٹ کے مرکزی علاقوں میں 2 سے 3 فٹ پانی جمع ہوا، اور شہری زندگی مکمل طور پر ٹھپ ہو گئی تھی۔ گجرات کی موجودہ صورتحال سیالکوٹ سے کہیں زیادہ سنگین ہے، کیونکہ 577 ملی میٹر بارش نے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایکس پر ایک صارف نے لکھا، "گجرات اور سیالکوٹ ڈوب رہے ہیں، لیکن انتظامیہ کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے، اور ہمیں اب فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔”
موسمیاتی تبدیلیوں کا کردار
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے مون سون کی شدت کو بڑھا دیا ہے، جس کے نتیجے میں شدید بارشیں، سیلاب، اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اور 2022 کے تباہ کن سیلابوں کے بعد بھی واٹر مینجمنٹ اور شہری منصوبہ بندی میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی۔ بھارت کی جانب سے دریائے چناب اور ستلج میں پانی کے اخراج نے بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ کیا ہے، لیکن مقامی سطح پر ناقص ڈرینیج سسٹم اس تباہی کی بنیادی وجہ ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
ایکس پر شہریوں نے گجرات کی سیلابی صورتحال پر شدید غم و غصے اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، "گجرات میں 577 ملی میٹر بارش نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ عمارتیں گر رہی ہیں، فصلیں برباد ہو گئی ہیں، اور انتظامیہ خاموش ہے۔” ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، "ہر سال یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ نالوں کی صفائی اور ڈرینیج سسٹم کی بہتری کے بغیر ہم ہر بار ڈوب جائیں گے۔” یہ ردعمل شہریوں کی بے بسی اور حکومتی ناکامی کو اجاگر کرتے ہیں۔
گجرات میں 577 ملی میٹر کی ریکارڈ بارش نے نہ صرف شہر بلکہ پورے پنجاب کے لیے ایک سنگین خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ یہ تباہی موسمیاتی تبدیلیوں، ناقص شہری منصوبہ بندی، اور واٹر مینجمنٹ کی ناکامی کا مشترکہ نتیجہ ہے۔ نالہ بھنڈر اور نالہ بھمبر جیسے برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے بہاؤ کو روکنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی، جس نے شہری اور دیہی علاقوں کو یکساں طور پر متاثر کیا۔
بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی کے اخراج نے حالات کو مزید خراب کیا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ پاکستان کو اپنے واٹر مینجمنٹ سسٹم کو مضبوط کرنے کی فوری ضرورت ہے، جیسے کہ ندیوں اور نالوں کی گہرائی بڑھانا، حفاظتی بندوں کی تعمیر، اور شہری ڈرینیج سسٹم کی اپ گریڈیشن۔ گجرات اور سیالکوٹ جیسے شہروں میں ہر سال بارشوں کے موسم میں سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے، لیکن حکومتی سطح پر کوئی طویل مدتی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
زرعی شعبے کو پہنچنے والا نقصان پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، کیونکہ پنجاب ملک کا زرعی حب ہے۔ فصلوں کی تباہی نے نہ صرف کسانوں کی آمدنی کو متاثر کیا بلکہ شہروں میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے امدادی کوششیں قابل تحسین ہیں، لیکن محدود وسائل اور ناکافی تیاری نے ان کی افادیت کو کم کر دیا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر متاثرین کے لیے خوراک، پانی، اور طبی امداد کے ساتھ ساتھ مالی معاوضہ فراہم کرے۔ طویل مدتی حل کے طور پر، ڈرینیج سسٹم کی بہتری، نالوں کی صفائی، اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی ناگزیر ہے۔ گجرات کے شہریوں کی پکار ایک واضح پیغام ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت نہ صرف فوری ریلیف فراہم کرے بلکہ مستقبل میں ایسی آفات سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں کو ہر سال ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو نہ صرف معاشی بلکہ سماجی طور پر بھی ناقابل برداشت ہوگا۔